علامہ عزیر شمس اور منتہی طلباء کی رہنمائی (مطالعہ کتب کے حوالے سے )

                                                                                                  ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی

www.drmannan.com   

میں اپنے تاثرات و احساسات  علامہ عزیر شمس  کی شخصیت کے  بارے میں تفصیل سے تحریر کر چکا ہوں ۔ اسے دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ نہ ہی اس موضوع میں   ان کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کی کوئی حاجت  محسوس کرتا ہوں  ۔اس لیے  میں ڈارکٹ اپنے  موضوع پر آتا ہوں ۔

میرا ارادہ تھا کہ آغاز مضمون میں کچھ مطالعہ کے اصول و ضوابط , قواعد و قوانین, فوائد و منافع کے بارے میں تحریر کروں ۔ اور اس کے لیے میں نے کوشش کی کہ شیخ عزیر کا کوئی خطاب  و محاضرہ مل جائے تو بہتر ہوگا۔ بنا بریں میں نے جامعہ ام القری مکہ میں زیر تعلیم  جدید و قدیم طلباء سے اس کی بابت رابطہ کیا اور ان کے پاس ایک سوالنامہ بھی بھیجا اور اس کا جواب دینے کی گذارش کی لیکن صرف تین طلباء کو چھوڑ کر کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی ۔ پاکستانی طلباء سے بھی میں نے رابطہ کیا لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا ۔ یہ تو ہمارے ان  طلباء کی حالت ہے جو یہ بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے  ہیں کہ شیخ عزیر تمام طلباء کی مدد کرتے تھے ۔ ان کو وقت دیتے تھے ۔ ان کی صحیح رہنمائی کرتے تھے ۔سوال یہ ہے کہ  آپ نے ان سے کیا سیکھا ۔ اگر آپ دوسروں کو دس بیس منٹ نہیں دے سکتے ہیں تو پھر آپ نے ان کا حق ادا نہیں کیا ۔

خیر یہ معلوم ہوا کہ آپ نے 7/5/1440ھ کو طلباء جامعہ ام القری کی ایک میٹنگ میں " مطالعہ کے آداب و اصول و ضوابط " پر ایک جامع و پر مغز خطاب فرمایا تھا ۔ لیکن افسوس وہ محاضرہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ۔ نہ ہی کسی کے ذہن میں اس کے بارے میں کچھ محفوظ ہے ۔صرف ایک طالب علم  شفاء اللہ عبد الرشید  مکی نے کچھ اصول و ضوابط بتلائے ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ 

لہذا میں دیگر مصادر و مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے  مطالعہ کی تعریف , اس کے اصول و ضوابط , فوائد و منافع  کے بیان کرنے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ عموما اہل علم ان سے واقف ہیں ۔ اس لیے براہ راست  علامہ عزیر شمس اور منتہی طلباء کی رہنمائی (مطالعہ کتب کے حوالے سے )  کے تعلق سے جو کچھ مواد  ملا ہے اسی کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔

 بلا شبہ  علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ اپنے طالب علمی ہی کے زمانہ سے  کتب بینی و مطالعہ کے بے حد شوقین تھے ۔ کتابوں کی ورق گردانی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہی نہیں بلکہ ان کی فطرت تھی  ۔ وہ اس کے لیے مکتبات کی خاک چھانتے تھے اور لائبریریوں  کی سیرکرتے تھے ۔ وہ اپنی بابت رقمطراز ہیں :

میں 1970 ع سے 1976 ع تک جامعہ سلفیہ میں چھ سال عالمیت اور فضیلت کے مراحل میں پڑھتا رہا۔اس وقت وہاں ہر فن کے ماہر اساتذہ موجود تھے ۔ نصاب تعلیم میں معقولات, منقولات اور ادبیات کے علاوہ انگریزی اور معلومات عامہ کے مضامین بھی شامل تھے۔ طلباء میں مطالعہ کا شوق , تحصیل علم کا جذبہ لکھنے پڑھنے میں مسابقت و منافست , کتابوں کے باہمی مذاکرہ اور عربی بولنے اور لکھنے سے شغف تھا۔ جامعہ میں جتنے تحریری و تقریری پروگرام ہوتے ان میں شرکت کے علاوہ جامعہ سے باہر بنارس میں جو بھی تعلیمی, علمی, ادبی اور ثقافتی اور مذہبی ادارے مسلمانوں یا غیر مسلموں کے تھے ان کی زیارت اور وہاں کی محفلوں میں شرکت ہم طلباء کا محبوب مشغلہ تھا ۔ مسجد , مندر, چرچ , گرودارے, بنارس ہندو یونیورسٹی , کاشی ودیا پیٹھ , جے نرائن کالج, سعیدیہ لائبریری , اسلامیہ لائبریری , جامعہ اسلامیہ, جامعہ فاروقیہ, جوادیہ کالج, رام نگر میں مولانا امام الدین رام نگری , للہ پورہ میں حکیم یوسف صاحب اور دیگر علمی و ادبی شخصیات کے چکر کاٹتے رہتے ۔ دور دور تک پیدل ہی نکل جاتے تھے ۔ چائے خانوں اور پارکوں کو بھی ہم لوگوں نے علمی بحث و مناظرے کے اڈے بنا دئیے تھے ۔اس ماحول میں ہماری پرورش اور نشو نما ہوئی , اساتذہ کرام ہم پر بڑی شفقت کرتے , درس کے علاوہ بھی باقی اوقات میں ہم ان سے استفادہ کرتےاور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے ۔ ( ڈاکٹر مقتدى حسن ازہری کی یاد میں , سہ ماہی افکار عالیہ,  ڈاکٹر مقتدى حسن ازہری نمبر, جلد 9-10, شمارہ: 3-4 و 1-2, اپریل 2012 ع تا جون 2013ع , ص 137)

اس سے ان کے مطالعہ کے شوق کا پتہ چلتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا  : پڑھنے کا شوق نشے کی طرح ہوتا ہے ۔ اس کا چسکا لگ جائے تو پھر پڑھے بغیر آپ کی تشفی نہیں ہو سکتی (منقول حافظ شاہد رفیق, فیس بک  )

ظاہر ہے جس شخص کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا نشہ ہو تو ہر عالم و فاضل , طالب و غیر طالب کو مطالعہ کتب کی ترغیب دے گا ۔ اس کو کتب بینی کو اپنی فطرت ثانیہ بنانے  کا مشورہ دے گا ۔ اور وہ یہ مشورہ  صرف  منتہی طلباء ہی کو نہیں بلکہ مبتدی طلباء کو بھی دے گا ۔ اسی وجہ سے وہ تمام طلباء کو  مطالعہ پر ابھارتے تھے خواہ وہ کسی بھی مرحلہ کا ہو  ۔ وہ  طلباء سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں:لائبریری کا رخ کریں  اور صرف  درسی مواد پر آپ اکتفا نہ کریں، اس میں ساری چیزیں نہیں ہوتی، نصاب عام طور سے بڑا مختصر ہوتا ہے، لہذا آپ کو مزید معلومات کے لیے لائبریری کا رخ کرنا ہوگا ۔ درسی مواد میں سے جس موضوع سے متعلق آپ کو مزید جانکاری چاہیے اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو چیزیں آپ نے درس میں پڑھی تھی اس میں تکرار پیدا ہوگی اور تکرارِ مطالعہ سے علم راسخ ہوتا ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ۔( مرکز السلام التعلیمی , شری کنڈ , 14/ فروری 2019 ع طلباء سے خطاب)

 شیخ عزیر نے  ایک مرتبہ  جامعہ ام القری , مکہ مکرمہ   میں مرحلہ ڈاکٹر کے طالب علم  شفاء اللہ مکی کو مطالعہ کے اصول و ضوابط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا  :------

طالب علم جس چیز کا مطالعہ کرے اس کے مفید و کار آمد ہونے کا یقین اس کے دل میں موجود ہو ۔ اس طرح مطالعہ میں اس کی دلچسپی بڑھے گی۔

مطالعہ کے لیے ایک متعین لائحہ عمل ہونا چائیے اور نظم و ضبط کا خاص اہتمام ہو۔

مطالعہ کے دوران طالب علم اپنی مطالعہ کی ہوئی چیزوں کے مختصر نوٹس تیار کرے کہ جس سے طالب کے ذہن و دماغ میں مضمون یا کتاب کا لب لباب مستحضر ہونے میں مدد ملے ۔

حسب رغبت و خواہش کتاب یا مضمون کا انتخاب کرکے مطالعہ کیا جائے ۔ ( شفاء اللہ)

ان کا کہنا تھا کہ انسان اپنے مطالعہ کے لیے  بسا اوقات   اپنے ذوق, فن, پیشہ و اختصاص کے اعتبار سے کتابوں کا انتخاب کرتا ہے اور کبھی مصنف و زبان کے اعتبار سے  کتابوں کا اتخاب کرتا ہے ۔ پڑھنے والے کا مزاج الگ الگ ہوتا ہے ۔ کتابیں بہت زیادہ ہیں ۔ ہر آدمی چاہتے ہوئے بھی سب کتابوں کا مطالعہ نہیں کرسکتا ہے ۔ کوئی ادب کا رسیا ہوتا ہے ۔ کسی کو اسلامیات کا شوق ہوتا ہے ۔ کوئی سیاست کا دلدادہ ہوتا ہے کوئی مذہب کا اسیر ہوتا ہے ۔ پھر انہوں نے اسلامیات  اور علوم و فنون میں دلچسپی رکھنے والے  فارغین مدارس اور یونیورسٹیز کے  ریسرچ  اسکالر کے لیے کچھ اہم کتابوں کے مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ۔جن میں سے چند یہ ہیں:---

مقدمہ ابن خلدون,  افکار ابن خلدون  مؤلف محمد حنیف ندوی, حجۃ اللہ البالغۃ شاہ ولی اللہ دہلوی, تشکیل جدید الہیات اسلامیہ علامہ اقبال, تلبس ابلیس علامہ ابن الجوزی, اعتصام علامہ شاطبی, الرسالہ امام شافعی, اساسیات اسلام محمد حنیف ندوی و فقہاء ہند شیخ اسحاق بھٹی وغیرہ ۔(ماخوذ از: علامہ عزیر شمس  کے ساتھ  ثناء اللہ صادق ساگر تیمی کا مکالمہ : کن کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے, اردو کتابیں جن کا مطالعہ ضروری ہے )

علامہ عزیر شمس کی فطرت تھی کہ وہ اپنے سے رابطہ میں رہنے والے طلباء  سے مطالعہ کے بارے میں نہ صرف  پوچھتے تھے  بلکہ ان کو خاص طور سے مطالعہ پر ابھار تے تھے اوران کی رغبت, دلچسپی ,  اختصاص و موضوع کو دیکھتے ہوئے  کتابوں کی طرف رہنمائی بھی  کرتے تھے ۔ ماسٹر کے مقالہ تحریک شہیدین کے بعض بنیادی مصادر و مراجع مثلا وقائع احمدی, منظورۃ السعداء, سید احمد شہید وغیرہ  کی طرف انہوں نے راقم کی رہنمائی کی تھی ۔ اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کتابوں سے بہت سارے مصادر و مراجع معلوم ہوجائیں گے ۔

 انہوں نے شفاء اللہ کو ماسٹر مقالہ( الواقع الدعوی بولایۃ بیہار فی الہند من القرن الثالث عشر الہجری الى الوقت الحاضر" دراسۃ تحلیلیہ) کی تیاری کے لیے جن اہم کتابوں کے مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا  ان میں حرکۃ الامامین أحمد بن محمد عرفان و الشاہ محمد اسماعیل بن عبد الغنی الدہلوی و أثرہا على المجتمع الاسلامی فی الہند للدکتور عبد المنان محمد شفیق مکی, نزہۃ الخواطر للشیخ عبد الحئی حسنی ندوی, حیاۃ المحدث شمس الحق و أعمالہ للشیخ محمد عزیر شمس , الموسوعۃ المیسرۃ فی الادیان و المذاہب المعاصرہ / الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامی, المسلمون فی الہند للشیخ ابو الحسن ندوی, تذکرہ اہل صادق پور شیخ عبد الرحیم صادق پوری, تذکرہ علماء ہند رحمان علی وغیرہ کتابیں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں ۔

اسی طرح آپ نے جامعہ ہی کے ایک دوسرے طالب علم  عبد الرب کو ان کے ماسٹر مقالہ کے موضوع کے اعتبار سے مطالعہ کے لیے بہت ساری کتابوں کی رہنمائی کی تھی جن میں مخطوطات , عربی مصادر و مراجع , مترجم عربی کتابیں,  علمی مقالات اور میگزین وغیرہ شامل ہیں ۔ جن میں سے چند بہت ہی اہم مصادر و مراجع درج ذیل ہیں :---

ابن قاطن، أحمد بن عبد الهادي:تحفۃ الاخوان، السِّندي،أبو الحسن محمد صادق: مسانيد الشيخ أبي الحسن السِّندي (الصغير) محمد عابد:  تراجم مشايخ الشيخ یہ تینوں مخطوطات ہیں ۔

حمد، زبيد: الاداب العربیۃ فی شبہ القارۃ الہندیۃ، انگلش سے ترجمہ  

مرتضی الزبيدي: ألفية السند، الكتاني، عبدالحي بن عبدالكبير:فهرس الفهارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشيخات والمسلسلات، الكتاني، محمد بن جعفر الكتاني: الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشہور کتب السنۃ المصنفۃ ، تحقيق: الكتاني، محمد المنتصر محمد الزمزمي، البلغرامي، غلام علي آزاد: مآثر الكرام ,الدهلوي، عبدالوهاب:مجلۃالحج،جلد11، جزء7، 16 محرم، 1377هـ/1957م.,الأثري، مولانا إرشاد الحق:العلامۃ محمد حياة السِّندي، مجلّة ترجمان الحديث الشهریۃ، المجلد 10، العدد3، ربيع الأول، 1399ه/1979م(الأردية).و العدد4، ربيع الأخر،1399ھ/1979م۔  

نسيم اختر مبارک حسین تیمی , طالب علم جامعہ ام القرى , مکہ مکرمہ  اپنے مضمون "شیخ عزیر شمس رحمہ ایک آئڈیل " میں رقمطراز ہیں :موصوف رحمہ اللہ ہر کسی کو اس کی منشا اور رغبت کے مطابق صحیح رہنمائی کرتے ،کسی کو خائب و خاسر واپس نہیں کرتے بلکہ ہر متلاشیان علم آپ کے پاس سے مستفید ہوکر ہی واپس ہوتا۔....جب بھی جہاں بھی آپ سے ملاقات ہوتی بڑے ہشاش و بشاش ہوکر ملتے ،احوال دریافت کرتے ،علمی رہنمائی فرماتے اور مطالعہ کتب کے بارے میں ضرور سوال کرتے اور ترغیب دیتے کہ اللہ نے آپ لوگوں کوبہت  ہی بہترین موقع عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے ام القری  یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری سے خوب استفادہ کیجیے اور حرم میں شیوخ کے دروس سے بھی فائدہ اٹھائیں یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا ۔

ایک مرتبہ میں نے آپ رحمہ اللہ سے خصوصی ملاقات کی اور اپنی رغبت کے بارے میں شیخ کے سامنے تذکرہ کیا ،آپ بہت  خوش ہوئے ،دعائیں دی ،علمی رہنمائی کی اور آپ نے میری رغبت کے مطابق تفسیر اور علوم قرآن کے بہت ساری کتابوں کا حوالہ دیا  اور تاکید کی کہ ان کتابوں کو پڑھ جاؤں ،تفسیر اور علوم التفسیر سے متعلق آپ نے جو کتابیں بتائیں ان میں سے کچھ اس طرح ہیں۔

1:الجامع لأحکام القرآن للامام الطبری 2:تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر 3:أضواءالبيان في إيضاح القرآن بالقرآن للشنقيطي 4: مقدمہ في أصول التفسير لابن تیمیہ  

اور علوم قرآن سے متعلق بھی آپ نے بہت ساری کتابیں بتائیں جن میں قابل ذکر یہ ہیں :---

1:البرهان في علوم القرآن للإمام الزركشي 2:الاتقان في علوم القرآن لجلال الدين السيوطي 3:مناهل العرفان في علوم القرآن للشيخ محمد عبدالعظيم الزرقاني .

جامعہ ہی کے ایک دوسرے طالب علم نثار نے لکھا ہے: شیخ سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو پوچھے کہاں کے ہیں بتایا جون پور , فورا بولے : قاضی محمد بن عبد العزیز مچہلی شہری کے یہاں کے ہیں , ان کے بارے میں ایک مضمون لکھوائے , پھر عربی کے تعلق سے کچھ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے لیے کہا , اور بولے الادب العربی فی القرن العشرین , مقدمہ ابن خلدون پڑھ ڈالئے , اس کے بعد برابر مطالعہ کرنے پر زور دیتے , کچھ نہ کچھ علمی کام کرنے پر ہمیشہ ابھارتے ۔کلیۃ الشریعہ میں داخلہ لیا تو کتابوں کی خود ایک فہرست تیار کرکے دئیے کہ اس کو پڑھئیے اور پھر مجھے اطلاع کرئیے۔

مذکورہ بالا سطور سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ نہ صرف خود مطالعہ کا بہت زیادہ شوق رکھتے تھے  اور  اس کےدلدادہ و رسیا تھے بلکہ وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے  کہ وہ   دوسروں خصوصا طلباء کو بھی اس کا شوقین بنائیں, ان کے اندر مطالعہ کی از حد دلچسپی پیدا کریں ۔ لہذا وہ ان کو  اس کی بہت زیادہ  رغبت دلاتے تھے ۔ اس کی بابت سوال کرتے تھے اور ہر ایک کو اس کے ذوق و شوق, دلچسپی و رغبت , اختصاص و موضوع کے اعتبار سے کتابوں کی رہنمائی فرماتے تھے اور ان کے پاس باعتبار اختصاص کتابوں کی ایک فہرست بھی تھی جو وہ طلباء کو عام طور سے دیتے تھے جس کا ایک نسخہ راقم کے پاس اب بھی محفوظ ہے  تاکہ ہر کوئی اپنی پسند و دلچسپی نیز موضوع و تخصص کے اعتبار سے مطالعہ کر سکے ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ آپ کے تمام اعمال کو قبول فرمائے ۔ آپ کی انسانی غلطیوں سے در گذر فرمائے ۔آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے  اور جنت الفردوس میں اعلى مقام عطا فرمائے ۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: